Arshi khan

Add To collaction

24-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منٹو کے افسانے قسط 5

منٹو کے افسانے قسط 5
آئے دن سعید کو زکام ہوتا تھا۔ ایک روز جب اس زکام نے تازہ حملہ کیا تو اس نے سوچا.... مجھے عشق کیوں نہیں ہوتا؟ سعید کے جتنے دوست تھے سب کے سب عشق کر چکے تھے۔ ان میں سے کچھ ابھی تک اس میں گرفتار تھے۔ لیکن جس قدر وہ محبت کو اپنے پاس دیکھنا چاہتا۔ اسی قدر اس کو اپنے سے دور پاتا۔ عجیب بات ہے مگر اس کو ابھی تک کسی سے عشق نہیں ہوا تھا۔ جب کبھی وہ سوچتا کہ واقعی اس کا دل عشق و محبت سے خالی ہے تو اسے شرمندگی سی محسوس ہوتی اور وقار کو ٹھیس سی پہنچتی۔ بیس سال کا عرصہ جس میں کئی برس اس کے بچپن کی بے شعوری کی دھند میں لپٹے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی اس کے سامنے لاش کی مانند اکڑ جاتا تھا۔ اور سوچتا کہ اس کا وجود اب تک بالکل بیکار رہا ہے۔ محبت کے بغیر آدمی کیونکر مکمل ہو سکتا ہے؟ سعید کو اس بات کا احساس تھا کہ اس کا دل خوبصورت ہے اور اس قابل ہے کہ محبت اس میں رہے، لیکن وہ مرمریں محل کس کام کا جس میں رہنے والا کوئی بھی نہ ہو، چونکہ اس کا دل محبت کرنے کا اہل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اس خیال سے بہت دکھ ہوتا کہ اس کی دھڑکنیں بالکل فضول ضائع ہو رہی ہیں۔ اس نے لوگوں سے سنا تھا زندگی میں ایک بار محبت ضرور آتی ہے۔ خود اسے بھی اس بات کا ہلکا سا یقین تھا کہ موت کی طرح محبت ایک بار ضرور آئے گی۔ مگر کب؟ کب؟ کاش اس کی کتاب حیات اس کی اپنی جیب میں ہوتی۔ جسے کھول کر وہ اس کا جواب فوراً پا لیتا۔ مگر یہ کتاب تو واقعات خود لکھتے ہیں۔ جب محبت آئے گی تو خود بخود اس کتاب حیات میں نئے ورقوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ وہ ان نئے ورقوں کے اضافے کے لئے کتنا بے تاب تھا۔ وہ جب چاہے اٹھ کر ریڈیو پر گیت سن سکتا تھا۔ جب چاہے کھانا کھا سکتا تھا۔ اپنی مرضی کے مطابق ہر وقت وسکی بھی پی سکتا تھا۔ جس کی اس کے مذہب میں ممانعت تھی۔ وہ اگر چاہتا تو استرے سے اپنے گال بھی زخمی کر لیتا۔ مگر حسب منشا کسی سے محبت نہیں کر سکتا تھا۔ ایک بار اس نے بازار میں ایک نوجوان لڑکی دیکھی، اس کی چھاتیاں دیکھ کر اسے ایسا معلوم ہوا کہ دو بڑے بڑے شلجم ڈھیلے کرتے میں چھپے ہوئے ہیں۔ شلجم اسے بہت پسند تھے۔ سردیوں کے موسم میں کوٹھے پر جب اس کی ماں لال لال شلجم کاٹ کر سکھانے کے لئے ہار پرویا کرتی تھی۔ تو وہ کئی کچے شلجم کھا جایا کرتا تھا۔ اس لڑکی کو دیکھ کر اس کی زبان پر وہی ذائقہ پیدا ہوا جو شلجم کا گودا چباتے وقت پیدا ہوتا ہے، مگر اس کے دل میں اس سے عشق کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا۔ وہ اس کی چال کو غور سے دیکھتا رہا جس میں ٹیڑھا پن تھا۔ ویسا ہی ٹیڑھا پن، جیسا کہ برسات کے موسم میں چارپائی کے پایوں میں کان کے باعث پیدا ہو جایا کرتا ہے۔وہ اس کے عشق میں خود کو گرفتار نہ کر سکا۔ عشق کرنے کے ارادے سے وہ اکثر اوقات اپنی گلی کے نکڑ پر دریوں کی دکان پر جا بیٹھتا تھا۔ یہ دوکان سعید کے ایک دوست کی تھی جو ہائی سکول کی ایک لڑکی سے محبت کر رہا تھا۔ اس لڑکی کی محبت لدھیانے کی ایک دری کے ذریعے سے پیدا ہوئی تھی۔ دری کے دام اس لڑکی کے بیان کی بموجب اس کے دو پٹے کے پلو سے کھل کر کہیں گر پڑے تھے۔ لطیف چونکہ اس کے گھر کے پاس رہتا تھا اس لئے اس نے اپنے چچا کی جھڑکیوں اور گالیوں سے بچنے کے لئے اس سے دری ادھار مانگی اور.... دونوں میں محبت ہو گئی۔شام کو بازار میں آمدورفت زیادہ ہو جاتی۔ اور دربار صاحب جانے کے لئے چونکہ راستہ وہی تھا۔ اس لئے عورتیں بھی کافی تعداد میں اس کی نظروں کے سامنے سے گذرتی تھیں۔ مگر جانے کیوں اسے ایسا محسوس ہوتا کہ جتنے لوگ بازار میں چلتے پھرتے ہیں۔ سب کے سب شفاف ہیں۔ اس کی نگاہیں کسی عورت، کسی مرد پر نہیں رکتی تھیں۔ لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کو اس کی آنکھیں ایک ایسی متحرک جھلی سمجھتی تھی جس میں سے وہ آسانی کے ساتھ جدھر چاہیں دیکھ سکتی ہیں .... اس کی آنکھیں کدھر دیکھتی تھیں۔ یہ نہ آنکھوں کو معلوم تھا، اور نہ سعید کو، اس کی نگاہیں دور بہت دور سامنے چونے اور گارے کے بنے ہوئے پختہ مکانوں کو چھیدتی ہوئی نکل جاتیں۔ نہ جانے کہاں اور خود ہی کہیں گھوم گھام کر اس کے دل کے اندر آ جاتیں۔بالکل ان بچوں کی مانند جو اپنی ماں کی چھاتی پر اوندھے منہ لیٹے ناک، کان اور بالوں سے کھیل کھال کر اپنے ہاتھوں کو تعجب آمیز دلچسپی سے دیکھتے دیکھتے نیند کے نرم نرم گالوں میں دھنس جاتے ہیں۔ لطیف کی دکان پر گاہک بہت کم آتے تھے۔ اس لئے وہ اس کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے مختلف قسم کی باتیں کیا کرتا تھا۔ لیکن وہ سامنے لٹکی ہوئی دری کی طرف دیکھتا رہتا، جس میں رنگ برنگ کے بے شمار دھاگوں کے الجھاؤ نے ایک ڈیزائن پیدا کر دیا تھا۔ لطیف کے ہونٹ ہلتے رہتے ، اور وہ یہ سوچتا رہتا کہ اس کے دماغ کا نقشہ دری کے ڈیزائن سے کس قدر ملتا جلتا ہے۔ بعض اوقات تو وہ یہ خیال کرتا کہ اس کے اپنے خیالات ہی باہر نکل کر اس دری پر رینگ رہے ہیں۔ اس دری میں اور سعید کی دماغی حالت میں بلا کی مشابہت تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ رنگ برنگ کے دھاگوں کے الجھاؤ نے اس کے سامنے دری کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے رنگ برنگی خیالات و محسوسات کا الجھاؤ ایسی صورت اختیار نہیں کر تا تھا، جس کو وہ دری کی مانند اپنے سامنے بچھا کریا لٹکا کر دیکھ سکتا! لطیف بے حد خام تھا۔ گفتگو کرنے کا سلیقہ تک اسے نہیں آتا تھا، کسی شے میں خوبصورتی تلاش کرنے کے لئے اس سے کہا جاتا تو فرط حیرت سے بالکل بے وقوف دکھائی دیتا، اس کے اندر وہ بات ہی پیدا نہیں ہوئی تھی، جو ایک آرٹسٹ میں پیدا ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود ایک لڑکی اس سے محبت کرتی تھی۔ اس کو خط لکھتی تھی، جس کو لطیف البتہ یوں پڑھتا تھا جیسے کسی تیسرے درجے کے اخبار میں جنگ کی خبریں پڑھ رہا ہے، ان خطوط میں وہ کپکپاہٹ اسے نظر نہیں آتی تھی جو ہر لفظ میں گندھی ہوئی ہے۔ وہ لفظوں کی نفسیاتی اہمیت سے بالکل بے خبر تھا۔ اس سے اگر یہ کہا جاتا، دیکھو لطیف یہ پڑھو.... لکھتی ہے۔'' میری پھوپھی نے کل مجھ سے کہا، کیا ہوا ہے تیری بھوک کو؟ تو نے کھانا پینا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ جب میں نے سنا تو معلوم ہوا کہ سچ مچ میں آج کل بہت کم کھاتی ہوں۔ دیکھو میرے لئے کل شہاب الدین کی دو کان سے کھیر لیتے آنا.... جتنی لاؤ گے سب چٹ کر جاؤں گی۔ اگلی پچھلی کسر نکال دوں گی.... کچھ معلوم ہوا تمہیں اس سطر میں کیا ہے.... تم شہاب الدین کی دوکان سے کھیر کا ایک بہت بڑا ڈونا لے کر جاؤ گے۔ لیکن لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر ڈیوڑھی میں جب تم اسے یہ تحفہ دو گے تو اس خیال سے خوش نہ ہونا کہ وہ ساری کھیر کھا جائے گی، وہ کبھی نہیں کھا سکے گی .... پیٹ بھر کر وہ کچھ کھا ہی نہیں سکتی، جب دماغ میں خیالات کا ہجوم جمع ہو جائے تو پیٹ خود بخود بھر جایا کرتا ہے، لیکن یہ فلسفہ اس کی سمجھ میں کیسے آتا۔ وہ تو سمجھنے سمجھانے سے بالکل کورا تھا۔ جہاں تک شہاب الدین کی دکان سے چار آنے کی کھیر اور ایک آنے کی خوشبو دار ربڑی خریدنے کا تعلق تھا، لطیف بالکل ٹھیک تھا، لیکن کھیر کی فرمائش کیوں کی گئی اور اس کے ذریعہ سے اشتہا پیدا کرنے کا خیال کن حالات کے تحت اس کی محبوبہ کے دماغ میں پیدا ہوا۔ اس سے لطیف کو کو ئی سرور کار نہیں تھا۔ وہ اس قابل ہی نہیں تھا کہ ان باریکیوں کو سمجھ سکے۔ وہ موٹی عقل کا آدمی تھا، جو لوہے کی زنگ آلود گز سے نہایت بھونڈے طریقے سے دریاں ماپتا تھا۔ اور شاید اسی طرح کے گز سے اپنے احساسات کی پیمائش بھی کرتا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک لڑکی اس کی محبت میں گرفتار تھی، جو ہر جہت سے اس کے مقابلہ میں ارفع و اعلیٰ تھی۔ لطیف اور اس میں اتنا ہی فرق تھا، جتنا لدھیانے کی دری اور کشمیر کے گدگدے قالین میں۔ سعید کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ محبت پیدا کیسے ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ خود جس وقت چاہے رنج و الم طاری کر سکتا تھا۔ محبت جس کے لئے وہ اس قدر بے تاب تھا۔ اس کا ایک اور دوست جواس قدر کاہل تھا کہ مونگ پھلی اور چنے، صرف اس صورت میں کھا سکتا تھا اگر ان کے چھلکے اترے ہوئے ہوں اپنی گلی کی ایک حسین لڑکی سے محبت کر رہا تھا، ہر وقت اس کے حُسن کی تعریف میں رطب اللسان رہتا تھا۔ لیکن اگر اس سے پوچھا جاتا.... یہ حسن تمہاری محبوبہ میں کہاں سے شروع ہوتا تو یقیناً وہ خالی الذہن ہو جاتا۔ جس کا مطلب وہ بالکل نہیں سمجھتا تھا۔ کالج میں تعلیم پانے کے باوجود اس کے ذہن کی نشوونما بڑے ادنیٰ طریقے پر ہوئی تھی، لیکن اس کی محبت کی داستان اتنی لمبی تھی کہ اقلیدس سے بڑی کتاب تیار ہو جاتی۔ آخر ان لوگوں کو.... ان جاہلوں کو عشق و محبت کرنے کا کیا حق حاصل ہے؟.... کئی بار یہ سوال سعید کے دماغ میں پیدا ہوا اور اس کی پریشانی بڑھ گئی لیکن دیر تک سوچ بچار کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ محبت کرنے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے،خواہ وہ بے شعور ہو یا با شعور.... دوسروں کو محبت کرتے دیکھ کر دراصل اس کے دل میں حسد کی چنگاری بھڑک اٹھتی تھی، وہ جانتا تھا کہ وہ بہت بڑا کمینہ پن ہے مگر وہ مجبور تھا، محبت کرنے کی خواہش اس پر اس قدر غالب رہتی کہ بعض اوقات دل ہی دل میں محبت کرنے والوں کو گالیاں بھی دیا کرتا۔ لیکن گالیاں دینے کے بعد اپنے آپ کو بھی کوستا۔ کہ ناحق اس نے دوسروں کو برا بھلا کہا۔ اگر دنیا کے سارے آدمی ایک دم محبت کرنے لگیں تو اس میں میرے باوا کا کیا جاتا ہے مجھے صرف اپنی ذات سے تعلق رکھنا چاہئے اگر میں کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتا تو ا س میں دوسروں کا کیا قصور ہے، بہت ممکن ہے کہ میں کسی لحاظ سے اس قابل ہی نہیں ہوں ، کیا پتہ ہے کہ بیوقوف اور بے عقل ہونا ہی محبت کرنے کے لئے ضروری ہو....'' سوچتے سوچتے ایک دن وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ محبت ایک دم پیدا نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ محبت ایک دم پیدا ہو تی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس کے دل میں اب سے بہت عرصہ پہلے محبت پیدا ہو گئی ہوتی، کئی لڑکیاں اس کی نگاہوں سے اب تک گذر چکی تھیں ، اگر محبت ایک دم پیدا ہو سکتی تو وہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ خود کو بڑی آسانی کے ساتھ وابستہ کر سکتا تھا۔ کسی لڑکی کو صرف ایک دو بار دیکھ لینے سے محبت کیسے پیدا ہو جاتی ہے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ تھوڑے روز ہوئے ایک دوست نے جب اس سے کہا، کمپنی باغ میں آج میں نے ایک لڑکی دیکھی ایک ہی نظر میں اس نے مجھے گھائل کر دیا تو اس کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ ایسے فقرے اس کو بہت پست معلوم ہوتے تھے۔ایک ہی نظر میں اس نے مجھے گھائل کر دیا۔ لاحول ولا.... جذبات کا کس قدر عامیانہ اظہار ہے۔'' جب وہ اس قسم کی پست اور تیسرے درجے کے فقرے کسی کی زبان سے سنتا تو اسے ایسا معلوم ہوتا کہ اس کے کانوں میں پگھلتا ہوا سیسہ ڈال دیا گیا ہے۔ مگر پست ذہنیت اور لنگڑے مذاق کے لوگ اس سے زیادہ خوش تھے یہ لوگ جو عشق و محبت کی لطافتوں سے بالکل کورے تھے.... اس کے مقابل میں بہت زیادہ سکون اور آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ محبت اور زندگی کو ایم۔ اسلم کی نگاہوں سے دیکھنے والے خوش تھے۔ مگر سعید جو کہ محبت اور زندگی کو اپنی صاف اور شفاف آنکھوں سے دیکھتا تھا۔ مغموم تھا.... بیحد مغموم.... ایم، اسلم سے اسے بے حد نفرت تھی۔ اتنا چھچھورا رومان نویس.... اس کی نظروں سے کبھی نہ گذرا تھا۔ اس کے افسانے پڑھ کر ہمیشہ اس کا خیال ٹبی اور کٹڑہ گھنیاں کی کھڑکیوں کی طرف دوڑ جاتا۔ جن میں رات کو کسبیوں کے غازہ لگے گال نظر آتے ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ اکثر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں اسی کے افسانے معاشقہ پیدا کرتے تھے۔ جو عشق ایم۔ اسلم کے افسانے پیدا کرتے ہیں۔ کس قسم کا عشق ہو گا! جب وہ اس پر تھوڑی دیر غور کرتا تو اسے تصور میں یہ عشق ایک ایسے سفلے آدمی کی شکل میں دکھائی دیتا جس نے نمائش کی خاطر اپنے سب اچھے اچھے کپڑے پہن رکھے ہوں ، ایک کے اوپر ایک؟ ایم۔اسلم کے افسانوں کے بارے میں اس کی رائے کیسی بھی ہو۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ نوجوان لڑکیاں انہیں چھپ چھپ کر پڑھتی تھیں۔اور جب ان کے جذبات بر انگیختہ ہوتے تھے تو وہ اسی آدمی سے محبت کرنا شروع کر دیتی تھیں جو ان کو سب سے پہلے نظر آ جائے۔ اسی طرح بہزاد جس کی غزلیں ہندوستان کی ہر جان اور بائی، رات کوٹھوں پر گاتی ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بہت مقبول تھا۔ کیوں ؟ یہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا؟ بہزاد کی وہ عامیانہ غزل جس کا مطلع دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے ہے قریب قریب ہر شخص گاتا تھا۔ اس کے اپنے گھر میں اس کی چپٹی ناک والی نوکرانی جو اپنی جوانی کی منزلیں طوعاً و کرہاً طے کر چکی تھی برتن مانجتے وقت ہمیشہ دھیمے سروں میں گنگنایا کرتی تھی دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے اس غزل نے اسے دیوانہ بنا دیا تھا جہاں جاؤ دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے الاپا جا رہا ہے۔ آخر کیا مصیبت ہے۔ کوٹھے پر چڑھو تو کانا اسمٰعیل ایک آنکھ سے اپنے اڑتے ہوئے کبوتروں کی طرف دیکھ کر اونچے سروں میں گا رہا ہے۔'' دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔'' دریوں کی دکان پر بیٹھو تو، بغل کی دکان پر لالہ کشوری مل بزاز اپنے بڑے بڑے چوتڑوں کی گدیوں پر آرام سے بیٹھ کر نہایت بھونڈے طریقے پر گانا شروع کر دیتا ہے۔'' دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔'' دریوں کی دکان سے اٹھو اور بیٹھک میں جا کر ریڈیو کھولو تو اختری بائی فیض آبادی گا رہی ہے۔''دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے'' کیا بیہودگی ہے، وہ ہر وقت یہی سوچتا رہتا۔ لیکن ایک روز جبکہ وہ بالکل خالی الذہن تھا اور پان بنانے کے لئے چھالیا کاٹ رہا تھا اس نے خود غیر ارادی طور پر گانا شروع کر دیا۔ دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے وہ اپنے آپ میں بے حد خفیف ہوا۔ اسے خود پر بہت غصہ بھی آ یا۔ لیکن پھر ایکا ایکی زور سے ہنسنے کے بعد اس نے جان بوجھ کر اونچے سروں میں گانا شروع کیا، '' دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔'' یوں گاتے ہوئے اس نے تصور کے زور پر بہزاد کی ساری شاعری ایک قہقہے کے نیچے دبا دی اور جی ہی جی میں خوش ہو گیا۔ ایک دو بار اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ بھی ایم، اسلم کی افسانہ نویسی اور بہزاد کی شاعری کا گرویدہ ہو جائے اور یوں کسی سے عشق کرنے میں کامیابی حاصل کر لے۔ لیکن قصد کرنے پربھی وہ ایم اسلم کا افسانہ پورا نہ پڑھ سکا۔اور نہ بہزاد کی غزل ہی میں کوئی خوبصورتی دیکھ سکا؟ ایک دن اس نے اپنے دل میں عہد کر لیا۔ جو ہو سو ہو میں ایم اسلم اور بہزاد کے بغیر ہی اپنی خواہش پوری کروں گا جو خیالات میرے دماغ میں ہیں ان سب کے سمیت ، میں کسی لڑکی سے محبت کروں گا.... یہی ہے نا کہ، ناکام رہوں گا۔ تو بھی ناکامی ان دو ڈگڈگی بجانے والوں سے اچھی ہے۔'' اس دن سے اس کے اندر عشق کرنے کی خواہش اور بھی تیز ہو گئی۔ اور اس نے ہر روز صبح کو ناشتہ کئے بغیر ریل کے پھاٹک پر جانا شروع کر دیا۔ جہاں کئی لڑکیاں ہائی سکول کی طرف جاتی تھیں۔ پھاٹک کے دونوں طرف لوہے کا ایک بڑا توا جس پر لال روغن پینٹ کیا گیا تھا، جڑا تھا۔ دور سے جب وہ ان دو لال لال تووں کو ایک دوسرے کے پیچھے دیکھتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ فرنٹیر میل آ رہی ہے پھاٹک کے پاس پہنچتے ہی فرنٹیر میل مسافروں سے لدی ہوئی آتی اور دندناتی ہوئی اسٹیشن کی جانب غائب ہو جاتی۔ پھاٹک کھلتا اور وہ لڑکیوں کے انتظار میں ایک طرف کھڑا ہو جاتا۔ ادھر سے پچیس نہیں ، چھبیس لڑکیاں ( پہلے دن اس نے گننے میں غلطی کی تھی) وقت پر ادھر سے گذرتیں اور لوہے کی پٹڑیوں کو طے کر کے کمپنی باغ کے ساتھ والی سڑک کی طرف ہو جاتیں جدھر ان کا اسکول تھا۔ ان چھبیس لڑکیوں میں سے دس لڑکیوں کو جو کہ ہندو تھیں وہ اس لئے غور سے نہ دیکھ سکا کہ باقی سولہ مسلمان لڑکیوں کی شکل و صورت برقعوں میں چھپی رہتی تھی۔ دس روز وہ متواتر پھاٹک پر جاتا رہا۔ شروع شروع میں دو تین دن ان پردہ پوش اور بے پروہ لڑکیوں کی طرف متوجہ رہا۔ مگر دسویں روز جب صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ جس میں کمپنی باغ کے تمام پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ اس نے یک لخت اپنے آپ کو لڑکیوں کے بجائے ان پست قد درختوں کی طرف متوجہ پایا جس میں بے شمار چڑیاں چہچہاتی تھیں۔ صبح کی خمار آلود خاموشی میں چڑیوں کا چہچہانا کتنا بھلا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ جب اس نے غور کیا تو اسے پتہ چلا کہ وہ ایک ہفتہ سے لڑکیوں کی بجائے ان چڑیوں ، درختوں اور فرنٹیر میل کی موت جیسی یقینی آمد سے دلچسپی لیتا رہا ہے۔ عشق شروع کرنے کے لئے اس نے اور بھی بہت سے حیلے کئے مگر نا کام رہا۔ آخر کار اس نے سوچا۔ کیوں نہ اپنی گلی ہی میں کوشش کی جائے،چنانچہ ایک روز اس نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر ان تمام لڑکیوں کی فہرست بنائی جن سے عشق کیا جا سکتا تھا۔ جب فہرست تیار ہو گئی تو نو لڑکیاں اس کے پیش نظر تھیں۔ نمبر ایک حمیدہ، نمبر دو صغریٰ، نمبر تین نعیمہ، نمبر چار، پشپا، نمبر پانچ، بملا، نمبر چھ راجکماری، نمبر سات فاطمہ عرف پھاتو، نمبر آٹھ زبیدہ عرف بیدی نمبر9.... اس کا نام اسے معلوم نہیں تھا۔ یہ لڑکی پشمینے کے سوداگروں کے ہاں نو کر تھی۔ اب اس نے نمبر وار کرنا شروع کیا۔ حمیدہ خوبصورت تھی بڑی بھولی لڑکی۔ عمر بمشکل پندرہ برس کی ہو گی۔ سدا متبسم رہتی تھی بڑی نازک، اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید شکر کی پتلی ہے، بھربھری اگر ذرا اس کو ہاتھ لگایا تو اس کے جسم کا کوئی حصہ گر جائے گا۔ ننھے سینے پر چھاتیوں کا ابھار ایسے تھا جیسے کسی مدھم راگ میں دو سُر غیر ارادی طور پر اونچے ہو گئے ہیں۔ اگر اس سے وہ کبھی یہ کہتا، حمیدہ میں تم سے محبت کرنا چاہتا ہوں تو یقیناً اس کے دل کی حرکت بند ہو جاتی۔ وہ اسے سیڑھیوں میں ایسی باتیں کہہ سکتا تھا۔ تصور میں وہ حمیدہ سے اسی جگہ ملا.... وہ اوپر سے تیزی کے ساتھ نیچے اتر رہی تھی، اس نے اسے روکا اور اس کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کا ننھا سا دل سینہ میں یوں پھڑپھڑایا جیسے تیز ہوا کے جھونکے دیئے کی لو۔ وہ کچھ نہ سمجھ سکا۔ حمیدہ سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا، وہ اس قابل ہی نہیں تھی کہ اس سے محبت کی جاتی۔ وہ صرف شادی کے قابل تھی۔ کوئی بھی خاوند اس کے لئے مناسب تھا۔ کیونکہ اس کے جسم کا ہر ذرہ بیوی تھا۔ اس کا شمار ان لڑکیوں میں ہو سکتا تھا، جن کی ساری زندگی شادی کے بعد گھر کے اندر سمیٹ کر رہ جاتی ہے جو بچے پیدا کرتی ہیں اور چند ہی برسوں میں اپنا سارا رنگ روپ کھو دیتی ہیں۔ اور رنگ روپ کھو کر بھی جن کو اپنے میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔ ایسی لڑکیوں سے محبت کا نام سن کر جو یہ سمجھیں ایک بہت بڑا گناہ ان سے سرزد ہو گیا ہے، وہ محبت نہیں کر سکتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اگر وہ کسی روز غالب کا ایک شعر اسے سنا دیتا، تو کئی دنوں تک نماز کے ساتھ بخشش کی دعائیں مانگ کر بھی، وہ یہ سمجھتی کہ اس کی غلطی معاف نہیں ہوئی.... اپنی ماں سے اس نے فوراً ہی ساری بات کہہ سنائی ہوتی۔ اور اس پر جو ادھم مچتا اس کے تصور ہی سے سعید کانپ کانپ اٹھتا۔ ظاہر ہے کہ سب اسے مجرم قرار دیتے اور ساری عمر کے لئے اس کے کردار پر ایک بد نما داغ لگ جاتا۔ کوئی اس بات کی طرف دھیان نہ دیتا کہ وہ صدق دل سے محبت کرنے کا متمنی ہے۔ نمبر دو صغریٰ اور نمبر 3 نعیمہ کے بارے میں سوچنا ہی بیکار تھا۔ اس لئے کہ وہ ایک کٹر مولوی کی لڑکیاں تھیں۔ ان کا تصور کرتے ہی سعید کی آنکھوں کے سامنے اس مسجد کی چٹائیاں آ گئیں جن پر مولوی قدرت اللہ صاحب لوگوں کو نماز پڑھانے اور اذان دینے میں مصروف رہتے تھے۔ یہ لڑکیاں جوان اور خوبصورت تھیں ، مگر عجیب بات ہے کہ چہرے محراب نما تھے۔ جب سعید اپنے گھر میں بیٹھا ان کی آواز سنتا تو اسے ایسا لگتا۔ کہ عادت کے طور پر کوئی دھیمے دھیمے سروں میں دعا مانگ رہا ہے۔ ایسی دعا جس کا مطلب وہ خود بھی نہیں سمجھتا۔ ان کو صرف خدا سے محبت کرنا سکھایا گیا تھا۔ اسی لئے سعید ان سے محبت کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ انسان تھا اور انسان کو اپنا دل دینا چاہتا تھا۔صغریٰ اور نعیمہ کی اس دنیا میں اس طور پر تربیت ہو رہی تھی کہ وہ دوسرے جہان میں نیکو کار مردوں کے کام آ سکیں۔ جب سعید نے ان کے متعلق سوچا تو اپنے آپ سے کہا۔'' بھئی نہیں۔ ان سے میں عشق نہیں کر سکتا۔ جو انجام کار دوسرے آدمیوں کے حوالے کر دی جائیں گی۔مجھے اس دنیا میں بھی گناہ کرنے ہیں ، اس لئے میں جو انہیں کھیلنا چاہتا۔ مجھ سے یہ نہ دیکھا جائے گا کہ اس دنیا میں جس سے محبت کرتا ہوں چند گناہوں کے بدلے وہ کسی پرہیز گار کے سپرد کر دی جائیں۔ چنانچہ اس نے فہرست میں سے صغریٰ اور نعیمہ کا نام کاٹ دیا۔ نمبر چار پشپا، نمبر پانچ بملا، نمبر چھ راج کماری، یہ تین لڑکیاں جن کا آپس میں خدا معلوم کیا رشتہ تھا سامنے والے مکان میں رہتی تھیں۔ پشپا کے متعلق سوچ بچار کرنا بالکل فضول تھا۔ اس لئے کہ اس کا بیاہ ہونے والا تھا، ایک بزاز سے جس کا نام اتنا ہی بدصورت تھا جتنا پشپا کا خوبصورت، وہ اکثر اسے چھیڑا کرتا تھا اور کھڑکی میں سے اس کو اپنی کالی اچکن دکھا کر کہا کرتا تھا۔ پشپا بتاؤ تو میری اچکن کا رنگ کیسا ہے۔ پشپا کے گالوں پر ایک سیکنڈ کے لئے گلاب کی پتیاں سی تھرتھرا جاتیں اور وہ بہادری سے جواب دیا کرتی۔'' نیلا۔'' اس کے ہونے والے خاوند کا نام کالو مل تھا۔ لا حول ولا۔ کس قدر غیر شاعرانہ نام۔ جانے اس کا نام رکھتے ہوئے اس کے والدین نے کیا مصلحت دیکھی تھی۔ وہ جب پشپا اور کالو مل کے متعلق سوچتا، تو اپنے دل سے کہا کرتا، اگر اور کسی وجہ سے ان کی شادی رک نہیں سکتی تو صرف اسی وجہ سے روک دینی چاہئے کہ اس کے ہونے والے پتی کا نام نہایت ہی لغو ہے.... کالو مل.... ایک کالو اور پھر اس پر'' مل'' لعنت ہے.... آخر اس کا مطلب کیا ہوا....'' لیکن پھر سوچتا اگر پشپا کی شادی کالو مل بزاز سے نہ ہوئی تو کسی گھسیٹا رام حلوائی یا کسی کروڑی مل صراف سے ہو جائے گی۔ بہر حال وہ اس سے عشق نہیں کر سکتا تھا۔ اگر کرتا تو اسے ہندو مسلم فساد کا ڈر تھا۔ مسلمان اور ہندو لڑکی سے محبت کرے.... اول تو محبت ویسے ہی بہت بڑا جرم ہے اور پھر مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کی محبت.... نیم پر کریلا چڑھانے والی بات تھی۔ شہر میں کئی ہندو مسلم فساد ہو چکے تھے لیکن جس گلی میں سعید رہتا تھا نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان کے اثرات سے اب تک محفوظ رہی تھی۔ اگر وہ پشپا۔بملا یا راج کماری سے محبت کرنے کا ارادہ کر لیتا تو ظاہر ہے کہ دنیا کی تمام گائیں ، اور تمام سور اس گلی میں اکٹھے ہو جاتے ہندو مسلم فسادوں سے سعید کو سخت نفرت تھی۔ اس لئے نہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کا سر پھوڑتے ہیں اور لہو کے چھینٹے اڑتے ہیں۔ نہیں۔ اس لئے کہ ان فسادوں میں سر نہایت بھدے طریقے پر پھوڑے جاتے ہیں۔ اور لہو جیسی خوبصورت شے کو نہایت ہی بھونڈے طریقے پر بکھیرا جاتا ہے۔ راج کماری جوان دونوں سے چھوٹی تھی، اسے پسند تھی، اس کے ہونٹ جو سانس کی کمی کے باعث خفیف طور پر کھلے رہتے تھے اسے بے حد پسند تھے، ان کو دیکھ کر اسے ہمیشہ خیال آتا تھا، کہ شاید کہ ایک بوسہ ان کے ساتھ چھو کر آگے نکل گیا ہے، ایک مرتبہ اس نے راج کماری کو جو ابھی اپنی عمر کی چودھویں منزل طے کر رہی تھی اپنے مکان کی تیسری منزل پر غسل خانے میں نہاتے دیکھا تھا۔ اپنے مکان کے جھرنوں سے جب سعید نے اس کی طرف دیکھا تو اسے ایسا محسوس ہوا۔ کہ اس کا کوئی نہایت ہی اچھوتا خیال دماغ سے اتر کر سامنے آ کھڑا ہوا ہے، سورج کی موٹی موٹی کرنیں ، جن میں بیشمار فضائی ذرے مقیش کا چھڑکاؤ سا کر رہے تھے۔اس کے ننگے بدن پر پھیل رہی تھیں۔ ان کرنوں نے اس کے گورے بدن پر سونے کا پترا سا چڑھا دیا تھا، بالٹی میں سے جب اس نے ڈونگا نکالا اور کھڑی ہو کر اپنے بدن پر پانی ڈالا تو وہ سونے کی پتلی دکھائی دی، پانی کے موٹے موٹے قطرے اس کے بدن پر سے گر رہے تھے اور جیسے سونا پگھل پگھل کر گر رہا تھا۔ راجکماری، پشپا اور بملا کے مقابلے میں بہت ہوشیار تھی۔ اس کی پتلی پتلی انگلیاں جو ہر وقت یوں متحرک رہتی تھیں جیسے خیالی جرابیں بن رہی ہیں۔ اسے بہت پسند تھیں ، ان کی انگلیوں میں رعنائی تھی اور اس رعنائی کا ثبوت، کروشیئے اور سوئی کے ان کاموں سے ملتا تھا جو کئی بار دیکھ چکا تھا۔ ایک بار راج کماری کے ہاتھ کا بنا ہوا میز پوش دیکھ کر اسے خیال آیا کہ اس نے اپنے دل کی بہت سی دھڑکنیں بھی، غیر ارادی طور پر اس کے ننھے ننھے خانوں میں گوندھ دی ہیں۔ ایک بار جبکہ وہ اس کے بالکل پاس کھڑی تھی اس کے دل میں محبت کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ مگر جب اس نے راج کماری کی طرف دیکھا تو وہ اسے ایک مندر کی صورت میں دکھائی دی۔ جس کے پہلو میں وہ خود بخود مسجد کی شکل میں کھڑا تھا.... مسجد اور مندر میں کیونکر دوستی ہو سکتی ہے۔ گلی کی تمام لڑکیوں کے مقابلے میں یہ ہندو لڑکی ذہنی لحاظ سے بلند تھی۔ اس کی پیشانی جس پر ہر وقت ایک مدھم سی سلوٹ گہرائی اختیار کرنے کا ارادہ کئے رہتی تھی، اسے بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ اس کا ما تھا دیکھ کر وہ دل ہی دل میں کہا کرتا جب دیباچہ اتنا دلچسپ ہے تو معلوم نہیں کتاب کتنی دلچسپ ہو گی.... مگر.... آہ.... یہ مگر!.... اس کی زندگی میں یہ مگر سچ مچ کا مگر بن کر رہ گیا تھا۔جو اسے غوطہ لگانے سے ہمیشہ باز رکھتا تھا۔ نمبر سات فاطمہ عرف پھاتو۔ خالی نہیں تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ عشق سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک امجد سے جو ورکشاپ میں لوہے کا کام کرتا تھا اور دوسرا اس کے چچیرے بھائی سے جو دو بچوں کا باپ تھا۔ فاطمہ عرف پھاتو ان دونوں بھائیوں سے عشق کر رہی تھی۔ گویا ایک پتنگ سے دو پیچ لڑا رہی ہے، ایک پتنگ میں جب دو اور پتنگ الجھ جائیں تو کافی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر اس تگڈے میں ایک اور پیچ کا اضافہ ہو جائے تو ظاہر ہے کہ الجھاؤ ایک بھول بھلیاں کی صورت اختیار کر لے گا۔ اس قسم کا الجھاؤ سعید کو پسند نہیں تھا۔ اس کے علاوہ پھاتو جس قسم کے عشق میں گرفتار تھی، نہایت ہی ادنیٰ قسم کا تھا۔ جب سعید اس قسم کے عشق کا تصور کرتا۔ تو پرانی عشقیہ داستانوں کی بوڑھی کٹنی پیلے کاغذوں کے بدبو دار انبار میں سے اس کی آنکھوں کے سامنے لاٹھی ٹیکتی ہوئی آ جاتی۔ اور اس کی طرف یوں دیکھتی جیسے کہنا چاہتی ہے۔ میں آسمان کے تارے توڑ کر لا سکتی ہوں بتا تیری نظر کس لونڈیا پر ہے، یوں چٹکیوں .... میں تجھ سے ملا دوں گی۔ اس بڑھیا کے تصور کے ساتھ ہی وہ پائیں باغ کے متعلق سوچتا، یا ظاہراً پیر کا مزار اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ جہاں وہ بڑھیا اس کی محبوبہ کو کسی بہانے سے لا سکتی تھی.... اس خیال کے آتے ہی اس کی محبت کا سارا جذبہ سمٹ جاتا اور ایک ایسی قبر کی صورت اختیار کر لیتا جس پر سبز رنگ کا غلاف چڑھا ہو اور بے شمار ہار اس پر بکھرے ہوں .... کبھی کبھی اسے یہ بھی خیال آتا اگر کٹنی نا کام رہی تو کچھ دنوں کے بعد اس محلے سے میرا جنازہ نکلے گا، اور دوسرے محلے سے میری نو جوان محبوبہ کا، یہ دونوں جنازے راستے میں ٹکرائیں گے، اور دو تابوتوں کا ایک تابوت بن جائے گا۔ یا عشقیہ داستانوں کے انجام کی طرح جب مجھے اور میری محبوبہ کو دفن کیا جائے گا۔ تو ایک معجزہ رونما ہو گا اور دونوں قبریں آپس میں مل جائیں گی۔ وہ یہ بھی سوچتا کہ اگر وہ مر گیا اور اس کی محبوبہ کسی وجہ سے جان نہ دے سکی تو ہر جمعرات کو اس کی قبر پر نازک نازک ہاتھ پھول چڑھایا کریں گے اور دیا بھی جلایا کریں گے۔ بال کھول کر وہ اپنا سر قبر کے ساتھ پھوڑا کرے گی، اور چغتائی ایک اور تصویر بنا دے گا جس کے نیچے یہ لکھا ہو گا ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا یا کوئی شاعر ایک اور غزل لکھ دے گا۔ ایک زمانے تک تماش بین جسے کوٹھوں پر طبلے کی تھاپ کے ساتھ سنتے رہیں گے، اس غزل کے شعر اس قسم کے ہوں گے مری لحد پہ کوئی پردہ پوش آتا ہے چراغ گور غریباں صبا بجھا دینا! ایسے شعر جب کبھی وہ کسی غزل میں دیکھتا تو اس نتیجے پر پہنچتا کہ عشق گور کن ہے جو ہر وقت کاندھے پر کدال رکھے عاشقوں کے لئے قبریں کھود نے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اس عشق سے وہ اس عشق کا مقابلہ کرتا جس کا تصور اس کے ذہن میں تھا۔ ان میں زمین و آسمان کا فرق پاتا تو یہ سوچتا کہ یا تو اس کا دماغ خراب ہے یا وہ نظام ہی خراب ہے جس میں وہ سانس لے رہا ہے۔ سعید اگر کوئی دیوان کھولتا۔ تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ کسی قصائی کی دکان میں داخل ہو گیا ہے، ہر شعر اسے بے کھال کا بکرا دکھائی دیتا تھا جس کا گوشت چربی سمیت بو پیدا کر رہا ہو۔ ہر بات ایک خاص ذائقہ پیدا کرتی ہے جب وہ اس قسم کے شعر پڑھتا تو اس کی زبان پر وہی ذائقہ پیدا ہوتا جو قربانی کا گوشت کھاتے وقت وہ محسوس کیا کرتا تھا ....'' وہ سوچتا جس صوبے میں آبادی کا چوتھا حصہ شاعر ہے اور ایسے ہی شعر کہتا ہے وہاں محبت ہمیشہ گوشت کے لو تھڑوں کے نیچے دبی رہے گی، یہ مایوسی کسی نہ کسی وجہ سے ایک دو روز کے بعد غائب ہو جاتی۔ اور وہ پھر نئی تازگی کے ساتھ اپنی محبت کے مسئلے پر غور و فکر کرنا شروع کر دیتا۔ نمبر آٹھ زبیدہ عرف بیدی بھرے بھرے ہاتھ پیر والی لڑکی تھی۔ دور سے دیکھنے پر گندھے ہوئے میدے کا ایک ڈھیر دکھائی دیتی تھی۔ گلی کے ایک لڑکے نے اس کو ایک بار آنکھ ماری۔ بیچارے نے یوں اپنی محبت کی بسم اللہ کی تھی لیکن اس کو لینے کے دینے پڑ گئے، لڑکی نے ماں کو ساری رام کہانی سنائی۔ ماں نے اپنے بڑے لڑکے سے پوشیدہ طور پر بات چیت کی اور اس کو غیرت دلائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک آنکھ مارنے کے دوسرے روز شام کو جب عبد الغنی صاحب طبابت عرف حکمت سیکھ کر واپس آئے تو ان کی دونوں آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ زبیدہ عرف بیدی چق میں سے یہ تماشہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی، سعید کو چونکہ اپنی آنکھیں بہت پیاری تھیں۔ اس لئے وہ زبیدہ کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ عبد الغنی نے آنکھ کے پلکارے سے محبت کا آغاز کرنا چاہا تھا۔ سعید کو یہ طریقہ بازاری معلوم ہوتا تھا۔ وہ اگر اس کو اپنی محبت کا پیغام دینا چاہتا تو اپنی زبان استعمال کرتا جو دوسرے روز ہی کاٹ لی جاتی۔ عمل جراحی کرنے سے پہلے زبیدہ کا بھائی کبھی نہ پوچھتا کہ بات کیا ہے بس وہ غیرت کے نام پر چھری چلا دیتا۔ اس کو اس کا خیال کبھی نہ آتا کہ وہ چھ لڑکیوں کی عصمت برباد کر چکا ہے، جن کی داستانیں وہ بڑے مزے سے اپنے دوستوں کو سنایا کرتا ہے۔ نمبر نو، جس کا نام اسے معلوم نہیں تھا۔ پشمینے کے سوداگروں کے ہاں نو کر تھی۔ ایک بہت بڑا گھر تھا جس میں چاروں بھائی رہتے تھے، یہ لڑکی جو کشمیر کی پیداوار تھی۔ ان چاروں بھائیوں کے لئے سردیوں میں شال کا کام دیتی تھی۔ گرمیوں میں وہ سب کے سب کشمیر چلے جاتے تھے اور وہ اپنی کسی دور کی رشتہ دار عورت کے پاس چلی جاتی تھی۔ یہ لڑکی جو عورت بن چکی تھی۔ دن میں ایک دو مرتبہ اس کی نظروں کے سامنے سے ضرور گزرتی تھی اور اس کو دیکھ کر وہ ہمیشہ یہی خیال کرتا تھا، کہ اس نے ایک عورت نہیں بلکہ تین چار عورتیں اکٹھی دیکھی ہیں۔ اس لڑکی کے متعلق جس کے بیاہ کے بارے میں اب چاروں بھائی فکر کر رہے تھے اس نے کئی بار غور کیا وہ اس کی ہمت کا بہت قائل تھا کہ گھر کا سارا کام کاج اکیلی سنبھالتی تھی اور ان چار سوداگر بھائیوں کی فرداً فرداً خدمت بھی کرتی تھی۔ وہ بظاہر خوش تھی، ان چار سوداگر بھائیوں کو جن کے ساتھ اس کا جسم متعلق تھا وہ ایک ہی نظر سے دیکھتی تھی۔ اس کی زندگی جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایک عجیب و غریب کھیل تھا جس میں چار آدمی حصہ لے رہے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کو یہ سمجھنا پڑتا تھا کہ باقی تین بیوقوف ہیں۔ اور جب اس لڑکی کے ساتھ ان میں سے کوئی مل جاتا تو وہ دونوں یہ سمجھتے ہوں گے کہ گھر میں جتنے آدمی رہتے ہیں سب کے سب اندھے ہیں ،لیکن کیا وہ خود اندھی نہیں تھی اس سوال کا جواب سعید کو نہیں ملتا تھا۔ اگر وہ اندھی ہوتی تو بیک وقت چار آدمیوں سے تعلقات پیدا نہ کرتی بہت ممکن ہے، وہ ان چاروں کو ایک ہی سمجھتی ہو.... کیونکہ مرد اور عورت کا جسمانی تعلق عام طور پر ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے دن بڑے مزے سے گذارتی تھی، چاروں سوداگر بھائی اسے چھپ چھپ کر کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہوں گے۔ کیونکہ مرد جب کسی عورت کے ساتھ کچھ عرصہ لطف انگیز تخلئے میں گذارتا ہے تو اس کے دل میں اس کی قیمت ادا کرنے کی خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ یہ خواہش عام طور پر تخلیہ حاصل کرنے سے پہلے پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے زیادہ بار آور ثابت ہوتی ہے۔ سعید اس کو اکثر بازار میں شہاب الدین حلوائی کی دکان پر کھیر کھاتے یا بھائی کیسر سنگھ میوہ فروش کی دکان کے پاس پھل کھاتے دیکھتا تھا۔ اسے ان چیزوں کی ضرورت تھی اور پھر جس آزادی سے وہ پھل اور کھیر کھاتی تھی اس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ ان کا ایک ایک ذرہ ہضم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک بار جب سعید، شہاب الدین کی دکان پر فالودہ پی رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اتنی ثقیل شے کیسے ہضم کر سکے گا وہ آئی اور چار آنے کی کھیر میں ایک آنے کی ربڑی ڈلوا کر دو منٹوں میں ساری پلیٹ چٹ کر گئی۔ یہ دیکھ کر سعید کو رشک ہوا جب وہ چلی گئی تو شہاب الدین کے میلے ہونٹوں پر ایک میلی مسکراہٹ پیدا ہوئی اور اس نے کسی بھی جو سن لے مخاطب کرتے ہوئے کہا، سالی مزے کر رہی ہے۔ یہ سن کراس نے لڑکی کی طرف دیکھا جو کولہے مٹکاتی پھلوں کی دکان کے پاس پہنچ چکی تھی۔ اور شاید بھائی کیسر سنگھ کی ڈاڑھی کا مذاق اڑا رہی تھی.... وہ ہر وقت خوش رہتی تھی۔ اور اس کو خوش دیکھ کر سعید کو بہت دکھ ہوتا تھا۔ خدا معلوم کیوں اس کے دل میں یہ عجیب و غریب خواہش پیدا ہوتی تھی کہ وہ خوش نہ رہے۔ سنہ تیس کے آغاز تک وہ اس لڑکی کے متعلق یہی فیصلہ کرتا رہا کہ اس سے محبت نہیں کی جا سکتی۔

   0
0 Comments